کرونا - اے میرے لخت جگر پیدا نہ ہو - محمد اشرف اعوان


کرونا - اے میرے لخت جگر پیدا نہ ہو - محمد اشرف اعوان

کرونا۔
اے میرے لختِ جِگر پیدا نہ ہو۔

کرونا ڈرامے میں رنگ بھرنے کو اے۔آر۔ واٸی کیا کم تھا کہ اب موباٸل میڈیا بھی لنگر لنگوٹ کَس کر کانوں میں شہد گھولنے لگا ہے۔

گزشتہ کٸی مہینوں سے روزی روٹی کمانے والے قدرتی ”قرنطینہ“ یعنی گھروں میں بند رہ کر کرونا سے تو شاٸید محفوظ ہو گٸے ہوں پر ایک اور مصیبت ”پیٹِینا“ یعنی پیٹ کے وائرس میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں۔ اس وائرس کا مداوا کرنے کو امیر المومنین نے بارہ ہزار روپیہ فی خاندان دینے کا اعلان نادرا کی تصدیق سے مشروط کر کے ریوڑیاں اپنوں میں بانٹنے کا پکا اور انسان دوست بندوبست کر دیا ہے کہ مدینہ سٹیٹ بھی سر پِیٹتی نظر آتی ہے۔نادرا سے رجوع کرو تو جواب ملتا ہے کہ آپ احساس پروگرام سے استفادے کے اہل نہیں۔

چلٸیے صاحب، باکمال لوگوں کو بہتی گنگا میں اشنان کرنے، بلکہ بار بار ڈبکیاں لگانے کا نظارہ کر کے مدینہ سٹیٹ کی افادیّت پر مہرِ تصدیق تو ثبت ہوٸی ورنہ ہم تو مدینہ سٹیٹ کو اینویں ای فضول شے سمجھنے پر مصِر تھے. 

بات موبائل میڈیا کی عوامی زندگی کو محفوظ بنانے سے نکل کر کہا ں پہنچ گٸی۔ اپنوں سے رابطے کیلٸے نمبر ملاتے ہی ایک نسوانی سریلی آواز کانوں میں امرت ٹپکانے لگتی ہے۔۔۔ ”کرونا ایک جان لیوا بیماری ہے اس سے بچنے کیلٸے ہاتھوں کو کٸی بار بیس سیکنڈ تک صابن سے دھوٸیے، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے پرہیز کیجٸے، سماجی فاصلہ( کم از کم ( 6 فٹ) برقرار رکھٸے“ وغیرہ وغیرہ۔ اس نغمہِ شیریں کو تواتر کے ساتھ سنتے سنتے طبیعت اوبھنے لگتی ہے ۔ہمارا تو خیر سے کیا بگڑے گا لمحہِ فکریہ شوہرانِ نامدار کیلٸے ہے جو روح کی پیاس بجھانے کو 6 فٹ کے فاصلے کا پلصراط عبور کرنے کی ہر تدبیر میں ناکام ہو کر ہونٹوں پر زبان پھیر کر کھسیانی ہنسی ہنسنے پر مجبور ہیں فطرتی پیاس ہلکان کٸے دیتی ہے، کنواں 6 فٹ کے فاصلے پر موجود ہے پر سماجی فاصلے کا نادر شاہی حکم دیوار بن گیا ہے، اختلاط تو دور کی بات ہے چھونے تک کی پابندی ہے۔ 

شنید (سنی سنائی) ہے کہ فطرت سے اغماض (در گزر کرنا) کرنا باؤلے پن کے مرض میں مبتلا کرتا ہے گھروں کے قرنطینے میں بند شوہر کرونا سے بچ بھی گٸے تو باٶلے پن کے وائرس سے ہلاکت کے دہانے پر پہنچ سکتے ہیں۔ الاماں والحفیظ۔

خواتین بھی موبائل پر کرونا سے بچنے کا م.متذکرہ (بیان کیا ہوا) انتباہ (باخبری) سنتی ہی ہیں اب شکمِ مادر (رحم) کے محفوظ قرنطینے میں دنیائے آب و گِل میں آنے کے منتظر بچے اس پیغام کو سننے کے بعد محفوظ قرنطینے سے غیر محفوظ اور مہلک قرنطینے میں نہ آنے پر بضد ہوٸے تو لاکھوں نومولود قبل از ولادت ہی قافلہِ رفتگان (گئے ہوئے یا مرے ہوئے لوگ) سے جا ملیں گے۔

 ایسے میں شوکت تھانوی مرحوم شدت سے یاد آئے جو بیروزگاری اور کساد بازاری (لین دین یا بازار کی سرگرمی میں کمی) کے اس دور میں اپنے نو مولود سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں کہ” اے میرے لختِ جگر پیدا نہ ہو“ تو صاحبانِ حل و عقد (دیکھ بھال کا نظام ) اس سماجی فاصلے کے پل کو منہدم (گراہوا مسمار) کرنے اور کرونا سے بچنے کی اس نا معقول شرط کو ختم کر کے گھروں میں مقیّد (قیدی) شوہر حضرات کی دلچسپی کے حیات آفریں مواقع کی فراہمی میں معاونت فرماٸیں بصورتِ دیگر نو مولودگان کے علاوہ مستقبل میں نقش و نگارِ دہر میں آمد کی منتظر روحوں کے ”بَین“ سے جہانِ رنگ و بو کے خدو خال مسخ (شکل یا حلیے کا بگاڑ) ہو کر کوٸی اور ہی جہان تخلیق پا جانے کا خدشہ ہے جس میں کرونا سے بھی خوفناک وائرس وجود میں آ کر عالمِ انسانیت کی تباہی کا باعث بن جاٸیگا۔

مدینہ سٹیٹ کے داعیان (بلانے والے) کیلٸے لمحہِ فکریہ ہے کہ اتنی تدابیر کے بعد کوٸی کوٸی نادانستہ خامی خدا نخواستہ کرونا کے مزید پھیلاٶ کا باعث نہ بن جاٸے۔ مساجد میں نمازیوں کے درمیان فاصلے کی تجویز کو خود پر بھی لاگو کریں جب بھاری بھرکم کابینہ سر جوڑکے بیٹھتی ہے تو کرونا کو شکار کیلٸے بہترین موقع فراہم کرتی ہے ہر چند بھاری بھرکم فردوس عاشق اعوان کے اخراج سے کچھ وسعت پیدا ہوٸی ہے پر پھر بھی کرونا کو گھس بیٹھنے میں ان کا یوں سر جوڑ کے بیٹھنا دعوت دے سکتا ہے اس پر مزید یہ کہ جلوس بھی کرونا کو کھل کر کھیلنے کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں یا یہ سمجھ لیا جائے کہ کرونا بھی خدا پرست ہے جو صرف مساجد میں اللہ کے پیاروں سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔

موجودہ نا اہل حکمرانوں کی نیکنامی میں شدّ و مد (دھوم دھام) سے رطب السان اے۔آر۔واٸی کو اس مدح سراٸی سے فرصت ملے تو کرونا کرونا کے کھیل کے علاوہ کسی تعمیری سوچ کا بھی مظاہرہ کریں ورنہ بصورتِ دیگر ارشاد بھٹی اور صابر شاکر جیسے میراثی ادارے کی اچانک موت اور خلیفة المسلمین کی جگ ہنساٸی (جس چیز پر دنیا ہنسے) میں بس آخری کِیل ٹھونکا ہی چاہتے ہیں اس چنڈال چوکڑی (چند لوگوں کا شرارت کرنا) میں ایک اور بقراط غلام حسین کی شمولیّت ادارے کو منطقی انجام (کسی شہ یا عمل کا نتیجہ) تک پہنچانے میں کلیدی (اہم) کردار ادا کر سکتی ہے۔ نفرت اور تعصب کا برملا پر چار کرنے سے قومی وحدت تو متاثر ہو ہی گی پر ان کے جگاٸے آتش فشاں میں خود ان کے اور ان کے ہمہ وقتی ممدوح یعنی امیر النومنین کے بھسم ہونے کے بھی 100% چانسز ہیں کہیں تماشا لگاتے لگاتے خود ہی تماشا نہ بن جاٸیں۔
وَ مَا عَلینا اِلّا البلاغ۔
محمد اشرف اعوان۔