عَرض کِیتا اے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب خلافِ توقع ہواٶں کا رخ بدل جاٸے،زمانہ آنکھیں پھیر لے، محبوب بلا کسی سبب کے وصل و کلام سے پہلو تہی کرنے لگے اور دل اضطراب و تفکرات کی گھمن گھیری میں کسی پل بھی قرار نہ پکڑ سکے تو زبان پر شکوہ و شکایات، الحاح و زاری مباح ٹھہرتی ہے۔ زیر نظر پنجابی غزل بھی عاشقِ زار کے سینے سے اٹھنے والے مدوجزر، ناتمام حسرتوں اور پھر تقدیر کے جان لیوا ہتھکنڈوں کے خلاف مایوسانہ اظہار ہے، ایسے ہی جیسے کوٸی ڈوبنے والا جان بچانے کو کوٸی تنکا پکڑنے کی کوشش میں مایوس ہو کر ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھے۔ کوٸی چارہ ساز، غمگسار نہ ہو، پایاب پانی ڈبونے پر تُلا ہو اور کنارہ رساٸی میں ہونے کے باوجود مونہہ چڑانے لگے تو عاشقِ زار کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ زیرِ نظر پنجابی غزل انہی قیامت خیز لمحات پر ماتم کناں ہے۔ ملنا نہ ملنا مقدر کی بات ہے پر مجروح کو زخنوں کیلٸے مرہم کی طلب بہرحال فطری امر اور
قدرتی حق ہے۔ تو آٸیے غزل حاضر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ وَیری تُوں تقریر تیری وِی
زلف تیری، زنجیر تیری وی۔
۔ میں وِی مرن تے راضی نٸیں سی
کُھڈی سی شمشیر تیری وِی۔
۔ کُجھ تُوں وِی اکھیاں پھیر لیّاں
کُجھ ماڑی سی تقدیر میری وِی۔
۔ باقی سَن کُجھ دن جِیون دے
ناقص سی تدبیر تیری وِی۔
۔ نظر چراون لگ پٸے سارے
تُوں وِی تے تصویر تیری وِی۔
۔ میری بربادی وچ شامل
شامل اے تقصیر تیری وِی۔
۔ عُمراں دیاں ڈُوہنگیاں مرضاں لٸ
اکھ دَسدے نے اکسیر تیری وِی۔
۔ کرٸیے دل دے ریزے چُن کے
نَوِیں نَکور تعمیر تیری وِی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہاٸی دیتی محبت اور سینہ پیٹتی حسرتیں تقدیر کے ناروا ستم اور محبوب کی عدم توجہی پر ماتم کناں ہیں۔ اہلِ دل میں سے کوٸی اگر اس جبر، روح فرسا حالات اور دلسوز حادثات کا شکار ہے تو اس کیلٸے مندرجہ غزل شاٸد رہبری کی کوٸی صورت پیدا کر سکے۔ ویسے بھی فی زمانہ محبت کی خواہش دیوانہ پن کے سوا کچھ نہیں۔خود غرضی کے مکروہ کیچڑ میں لتھڑی ناپاٸدار محبت سے دل کی محرومی بھلی۔
اللہ، خوبانَ بے پرواہ اور محبوبانِ ستم پیشہ کی قاتلانہ اداٶں سے محفوظ و مامون رکھے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
”گل کانٹے پاٸے ہوٸے نی
ساڈے نالوں بٹن چنگے جیہڑے دل نال لاٸے ہوٸے نی“
تو صاحبانِ عالی وقار، بٹن تو بے زبان ہیں تو کیا مناسب نہں کہ عمر بھر رونے اور خون تھوکنے کے بجاٸے محبت ہی سے دور رہا جاٸے! پر بشریت سے یہ ممکن ہی نہیں۔یہ وہ حسین فریب ہے جسے کھا کے پیشمانی نہیں ہوتی اور آواز و زاری کی لذت مسحور و مخمور رکھتی ہے۔
محمد اشرف اعوان۔