اگر ہمیں کوئی شخص پاکستا ن کے مشاہیر(مشہور لوگ) کی لسٹ مرتب (ترتیب) کرنے کے لئے کہے تو ادب، شاعری، فلسفہ، مذہب، صحافت، تاریخ اور قانون کے شعبوں میں سے ہم کن لوگوں کو چُن کر ایسی لسٹ میں داخل کرسکتے ہیں؟ چلئے ہم صرف ادب کی لسٹ کو ترتیب دے کر دیکھ لیتے ہیں۔
جناب اشفاق احمد،
جناب پطرس بخاری،
جناب فیض احمد فیض،
جناب غلام عباس،
جناب احمد ندیم قاسمی،
منٹو،
جناب شفیق الرحمٰن،
ن م راشد، جناب مشتاق احمد یوسفی،
ابن انشا، انتظار حسین،
ناصر کاظمی اور عبد اللہ حسین.
یہ ان مشاہیر کی فہرست مزید لمبی اور اِس میں بہت سارے نام اور شامل ہو سکتے تھے مگر کوئی بات نہیں۔
ہمارا کام انہی سے ہو جائے گا۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کا شمار پاکستان کے مشاہیر میں ہے ،اِن کے علم و دانش پر ہم آج تک فخر محسوس کرتے ہیں اور حسرت سے یاد کرکے ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اب ایسے نابغۂ (ذہنی صلاحیتوں کے مالک) روزگار لوگ پیدا کیوں نہیں ہورہے؟
ابیہ بات صرف اور صرف ادب تک محدود نہیں ہے، آپ کسی اور شعبے کی لسٹ بنا کر دیکھ لیں، اُس لسٹ میں بھی جو نام ذہن میں آئیں گے اُن کا تعلق بیسویں صدی کے شروع کے وسط تک ہی ہوگا، وہ تمام لوگ متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہوں گے، ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں اور پارسیوں کے درمیان پل بھڑ کر جوان ہوئے ہوں گے
اور انہوں نے سیکولر قسم کا نصاب پڑھا ہوگا، اِن کے اکثر اساتذہ غیر مسلم ہی ہوں گے، ان کے ہم جماعت تقریباً غیر مسلم ہونگے اور کم و بیش اِن سب حضرات نے اسکول میں غیر مذاہب کی رسومات اور تاریخوں جو بھی پڑھی ہوگا۔
تو آج ہم جن لوگوں کو اردو ادب کے سر کا جھومر کہتے ہیں، یہ تمام وہ لو گ تھے جنہوں نے ’غیر ’مذہبی تعلیم‘ لی مگر اس کے باوجود اپنے شعبے میں کمال رکھا۔ پاکستان میں انہیں اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا اور ہماری یہ خواہش ہے کہ وقت میں بھی اِسی علمی قد کاٹھ کے لوگ پیدا ہوتے رہیں۔
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟
میری رائے میں جس قسم کا نصاب ہم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں، اُس کے نتیجے میں رنجیت سنگھ کے مجسمہ کو توڑنے والے تو پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن ’گڈریا‘ اور ’آبِ گم ‘ لکھنے والے قسمتی ہی پیدا ہوں۔
اِس کی وجہ صاف ہے۔ ماضی میں جس قسم کا نصاب جو ہم نے اپنے بچوں کو پڑھایا تھا اُس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں، بہت ہی محنت کے ساتھ ہم نے ایسی فصل کاشت کی جو غیر مذہب ہی نہیں غیر مسلک کے لوگوں کو بھی کافر سمجھتی ہے۔
دوسرے ادیان (دین کی جمع) کیا سکھاتے ہیں، اُن کی تعلیمات کیا ہیں اور اُنہیں جاننا کتنا ضروری ہے؟ یہ بات کوئی بھی نہیں سننا چاہتا۔ کیا ہم اپنے دین کے بارے میں اتنے کمزور ہیں کہ اگر ہم اپنے بچوں کو دوسرے مذاہب کی چار باتیں بتائیں گے تو کیا وہ اپنے دین سے ہی پھر جائیں !ہم تین فیصد اقلیتوں کو حقوق دینے پر توآمادہ نہیں ہوتے مگر خود ستانوے فیصد ہوتے ہوئے بھی اِس بات کا حوصلہ اور طاقت نہیں رکھتے کہ بچوں کو باقی ابراہیمی مذاہب کے بارے میں ہی بتائیں۔
حالانکہ قران میں جگہ جگہ اس بارے میں آیات موجود ہیں۔
سورۃ النسا کی آیت 36میں ہے:
’’ اے ایمان والو! اللہ پر، اس کے رسول ﷺ پر اور اس کی کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کی ہے۔ اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری ہے اور جو کوئی اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا، اور آخرت کے دن کا انکار کرے وہ گمراہ ہوا اور اس میں بہت دور نکل گیا۔‘‘
اگر ہم نے دین کی تعلیم دینی ہے تو پھر یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ اسلامیات میں ابراہیمی مذاہب کے بارے میں بھی بچو ں کو لازمی پٖڑھایا جائے، اِس سے کسی حد تک مسیحی بھائیوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ہندو اور سکھ اقلیتوں کا مسئلہ البتہ وہیں رہے گا۔
علامہ اقبال نے پانچویں سے آٹھویں جماعت کے بچوں کے لئے جو نصاب تیار کیا اُس کی ایک معمولی سی جھلک میں نے اپنے گزشتہ کالم میں پیش کی۔ اُس نصاب میں جو کچھ علامہ نے شامل کیا تھا اگر آج وہی نصاب میں شامل کر دیا جائے تو شاید ہی ہمارے مذہبی علما کو ہضم نہ ہو اور وہ جمعے کے خطبات میں علامہ اقبال کے اشعار پڑھنا بند کرد یں۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اسی علامہ اقبال نے لالہ رام پرشاد کے ساتھ مل کر ’تاریخِ ہند ‘ کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی، کیا ہی مناسب ہوگا اگر یہ کتاب بھی پڑھ لی جائے تاکہ پتا چلے کہ ہمارا قومی شاعر اپنے بچوں کے لئے کیسی کتابیں پڑھنا مناسب سمجھتا تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ علامہ نے جو نصاب تیار کیا تھا دراصل وہ متحدہ ہندوستان کے لئے تھا جس میں کروڑوں کے حساب سے ہندو بستے تھے، آج کل کے دور میں پاکستان میں ایسے نصاب کی ضرورت نہیں جہاں ستانوے فیصد مسلمان ہیں۔چلیں اسی دلیل کو ہی مان لیتے ہیں۔
پھر اُس بات کوکہاں لے جائیں گے جو مطالعہ پاکستان میں ہمیں رٹائی جا رہی ہے کہ پاکستان تو اسی دن وجود میں آچکا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ غیر مسلم تو ایک بھی کافی ہے، یہاں تو لاکھوں کی بات ہو رہی ہے۔
اگر یہ دلیل درست مان لی جائے کہ ستانوے فیصد مسلمانوں کے ملک میں ایسا ہی نصاب بننا چاہئے جو اکثریت کو قبول کرے تو پھر کروڑوں ہندوؤں والے متحدہ یا موجودہ ہندوستان میں بھی ہمیں ایسے ہی نصاب کی حمایت کرنی پڑے گی جس میں مسلمانوں کو ہندو مت پڑھنے اور ’جے شری رام ‘ کہنےپر مجبور کیا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ بات ہمیں ہرگز قبول نہیں ہوگی۔
اب مسئلہ یہ نہیں کہ اُردو یا انگریزی کے نصاب میں حمد ہو یا بھجن، دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں، لیکن وہ ادب کے معیار اور نصاب کے مطابق تیار کردہ لرنگ آؤٹ کم پر پورا اتریں۔
مثال کے طور پر اردو ادب کی تاریخ مرثیہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے، غزل گوئی کی طرح ہی مرثیہ بھی اردو ادب کی روایت رہی ہے، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ آپ metric کے لئے اردو کی کتاب ترتیب دیں اور اس میں غالب کی غزل تو ہو مگر "میر انیس" کا مرثیہ موجود نہ ہو۔
اردو کی کتابوں میں حمد، نعت، مرثیہ، بھجن، رام اوتار کا قصہ، سب کچھ شامل ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اُس کی نوعیت ادبی ہو نا کہ مذہبی۔ اقبال کا تیار کردہ نصاب انہی خطوط کے مطابق رہا تھا۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جس ملک کا خواب انہوں نے دیکھا، اُس ملک میں آج اُن کا بنایا ہوا نصاب لاگو نہیں کیا جا رہا۔ لگتاہے علامہ سے چُوک ہو گئی! علامہ اقبال نے ٹھیک نہیں کیا!
یااسر پیر زادہ